جراثیم سے بھرے تکیہ کوکس طرح صاف ستھرا رکھا جائے؟

کیا آپ جانتے ہیں دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد جو بستر آپ کی پسندیدہ جگہ بن جاتا ہے وہ صرف آپ کی ہی پسندیدہ جگہ نہیں۔ لاکھوں جراثیم، پھپوندی کے ذرات، عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے کیڑے اور وائرس بھی یہاں بستے ہیں اور بعض اوقات انھیں یہاں پنپنے کے لیے بہترین ماحول بھی میسر ہوتا ہے۔ آپ کے بستر پر آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے جسم کی گرمائش، پسینہ، جلد کے مردہ خلیے اور کھانے کے چھوٹے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جراثیموں کو اپنی نسل بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔

ڈسٹ مائیٹس (یعنی گھر میں موجود دھول مٹی میں پائے جانے والے کیڑ) کی مثال لے لیں۔ ہر روز ہماری جلد سے 50 کروڑ کے لگ بھگ مردہ خلیے جھڑتے ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں جھڑنے والے یہی مردہ خلیے اِن ’ڈسٹ مائیٹس‘ کے لیے خوراک کا ایک بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔

بدقسمتی سے عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے اِن کیڑوں اور اِن کے اجسام سے نکلنے والی رطوبتوں کی وجہ سے آپ کو الرجی ہو سکتی ہے، ایکزیما جیسی جلد کی بیماری ہو سکتی ہے اور دمہ بھی۔ہمارے بستر پر موجود گدّے اور فوم کے ساتھ ساتھ بستر پر بچھی چادریں بھی جراثیم کی پسندیدہ پناہ گاہوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔گھر میں موجود تکیے اور چادر پر ٹوائلٹ سیٹ سے زیادہ جراثیم ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں انفیکشن کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں اور عالمی صحت کے پروفیسر ڈیود ڈیننگ نے اس موضوع پر ایک تحقیق کی۔ 2006 میں انھوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے دوست احباب کے گھروں سے چھ تکیے لیے۔ یہ تکیے اُن گھروں میں گذشتہ کئی برسوں سے زیر استعمال تھے۔بظاہر اِن صاف نظر آنے والے تکیوں میں پھپھوندی کی موجودگی کے شواہد ملے، خاص طور پر پھپھوندی کی ’ایسپگیلس فیومی گیٹس‘ نامی قسم کے جو عموماً مٹّی میں موجود ہوتی ہے۔

پروفیسر ڈیننگ نے بتایا کہ ’اگر آپ فنگس کے ذرات کی تعداد کی بات کریں تو یہ ہر تکیے میں اربوں اور کھربوں کی تعداد میں موجود ہو سکتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اتنا فنگس موجود ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رات کو سوتے وقت زیادہ تر لوگوں کے سروں سے پسینہ نکلتا ہے۔ ہمارے بستروں میں ڈسٹ مائیٹ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ ڈسٹ مائیٹ کے جسم سے نکلنے والی رطوبت فنگس کی نشوونما میں مدد کرتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اور پھر سر رکھنے کی وجہ سے تکیہ گرم بھی ہو جاتا ہے جس کے باعث فنگس کو پھلنے پھولنے کے لیے ناصرف گرمائش میسر آتی ہے بلکہ غذا اور نمی بھی۔‘انھوں نے کہا کہ ویسے بھی زیادہ تر لوگ اپنے تکیے باقاعدگی سے نہیں دھوتے جس کی وجہ سے تکیوں میں فنگس سالہا سال راج کرتی ہے۔ تکیے میں موجود فنگس میں صرف اُس وقت ہل چل مچتی ہے جب ہم اپنے تکیوں کو برابر کرنے کے لیے انھیں تھپتھپاتے ہیں اور یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے فنگس پورے کمرے میں پھیل جاتا ہے۔

یاد رہے کہ اگر ہم بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے گرم پانی پر بھی دھوئیں تب بھی اُن میں موجود فنگس زندہ رہ سکتا ہے۔غلاف کے علاوہ اگر تکیوں کی بات کی جائے تو اُن (تکیوں) کو دھونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسا کرنے سے اُن میں مزید نمی پیدا ہو جاتی ہے جس سے فنگس کو پھیلنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر تکیے دھونے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ کے مطابق اگر آپ کو پھیپھڑوں کی بیماری یا دمہ نہیں ہے تو آپ کو ہر دو سال بعد تکیے بدل لینے چاہییں۔ تاہم جن لوگوں کو ایسی کوئی سانس سے متعلقہ بیماری ہے تو انھیں ہر تین سے چھ ماہ بعد نئے تکیے خرید لینے چاہییں۔

بشکریہ جنگ نیوز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *